urdu news today live

موہن داس پئی کے کرپشن کے الزامات سے سیاسی ہلچل
کانگریس نے قرار دیا بی جے پی کا ایجنٹ،ثبوت ہوتوپےش کرےں:کھنڈرے
بنگلور۔6 اکتوبر(سالارنےوز) معروف صنعتکار اور بزنس مین موہن داس پئی کے ایک سوشل میڈیا پوسٹ نے کرناٹک کی سیاست میں نئی لہر دوڑادی ۔ پئی نے ریاست کی کانگریس حکومت پر بدعنوانی میں اضافے کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کئی اہم محکموں کو نشانے پر لیا۔ اس بیان نے نہ صرف حکومت کے خلاف ماحول بنایا بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے بھی ایک سیاسی ہتھیار فراہم کر دیا ہے۔موہن داس پئی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس حکومت کے تحت ریاست کے 12 بڑے محکموں میں کرپشن میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے بتایا کہ مختلف محکموں میں افسران کس حد تک بدعنوانی میں ملوث ہیں۔انہوں نے بتاےاکہ رےاست مےں 38فےصد سے 69فےصدتک بدعنوانی ہے۔دیگر محکمے جیسے خوراک، ادویات اور صحت، ان میں بدعنوانی کی شرح 75فےصد تک بتائی گئی ہے۔
کانگریس حکومت کا سخت ردعمل: موہن داس پئی بی جے پی کے ایجنٹ کی طرح برتاو¿ کر رہے ہیں۔کانگریس حکومت نے پئی کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ان پر بی جے پی کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ وزیر ایشور کھنڈرے نے پئی کی ٹویٹ پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہاموہن داس پئی بی جے پی کے ایجنٹوں کی طرح برتاو¿ کر رہے ہیں۔ اگر ان کے پاس بدعنوانی کے ثبوت ہیں تو وہ وزیر اعلیٰ کو پیش کریں۔ ہم شفاف حکومت چلا رہے ہیں اور ترقی پر زور دے رہے ہیں، ایسے بیانات صرف حکومت کو بدنام کرنے کے لیے ہیں اور ان کا مقصد بی جے پی کی سیاسی مدد ہے۔حکمران جماعت کے رکن اسمبلی نریندر سوامی نے موہن داس پئی کو شریف آدمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ براہِ راست میری توجہ میں لائیں۔ میڈیا میں بیان دینا مسئلے کا حل نہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے اٹھاےا فائدہ:پئی کے الزامات کو اپوزیشن جماعتوں نے فوراً ہاتھوں ہاتھ لیا اور کانگریس حکومت کو بدعنوان قرار دینے کے لیے ان الزامات کا استعمال کیا۔ بی جے پی اور دیگر اپوزیشن لیڈران نے کہا کہ بزنس مین جیسے افراد کی باتیں حکومت کی اصل حالت کو ظاہر کرتی ہیں۔جہاں ایک طرف موہن داس پئی کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاست میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کو عوام کے سامنے لا رہے ہیں، وہیں کانگریس حکومت ان پر سیاسی تعصب اور بی جے پی کی پشت پناہی کا الزام لگا رہی ہے۔اس تنازع نے ریاست میں بدعنوانی کے مسائل اور سیاسی دراڑوں کو ایک بار پھر منظر عام پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان الزامات کا سامنا کیسے کرتی ہے، آیا کوئی آزادانہ جانچ ہوگی یا یہ صرف ایک اور سیاسی ہنگامہ بن کر رہ جائے گا۔
سماجی و تعلیمی سروے کی مدت میں4دن کی توسیع کافی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *