urdu news today live

وقف قانون پر سپرےم کورٹ کا فیصلہ مسلم فریق کو جزوی طور پر راحت بخش
کرناٹک کے مسلم قائدین کی طرف سے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر راحت ومسرت کا اظہار
بنگلورو۔15ستمبر(سالار نیوز)مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے نئے وقف قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر مسلم فریقوں کو جزوی راحت دیتے ہوئے پےر کے روز ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے جو فیصلہ صادر کیا ہے اس پر کرناٹک کے مسلم سیاسی حلقوں میں راحت کا اظہار کیا گیا ۔ مسلم قائدین نے کہا کہ عدالت کے اس فیصلہ کو وقف قانون کے ذریعے ملک میں اوقاف کی اہمیت کو ختم کر کے رکھ دینے مرکزی حکومت کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔
بی زیڈ ضمیر احمد خان: کرناٹک کے وزیر برائے ہاﺅزنگ اقلیتی بہبود واوقاف ضمیر احمد خان نے وقف قانون پر سپرےم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے اس فیصلہ کے تحت مسلمانو ںکو جزوی راحت دی ہے۔ خاص طور پر نئے وقف قانون کی وہ متنازعہ دفعات جن کے ذریعے مرکزی حکومت وقف املاک کے معاملہ میں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرو ںکو مکمل اختیارات دینا چاہتی تھی اور ساتھ ہی وقف املاک کی نوعیت کو بدل دینے کی بات کہی تھی ان پر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے مسلمانوں کو راحت ضرور دی ہے۔ حکومت کی طرف سے ےہ کہا جا رہا تھا کہ نئے وقف قانون کے تحت اگر کسی وقف املاک پر کسی اوریا حکومت کی طرف سے دعویٰ کر دیا جائے تو ٹریبونل یا عدالت کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی حکومت اس ملکیت کی نوعیت کو بدل کر اوقاف سے نکال سکتی ہے۔ عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے۔ضمیر احمد خان نے کہا کہ مسلم پرسنل لاءبورڈاور ملک بھر میں علمائے کرام کی قیادت میں وقف قانو ن کے خلاف عوامی تحریک کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائی بھی جاری رہی۔ اس قانو نی جنگ میں عدالت عظمیٰ نے پیر کو جو فیصلہ سنایا ہے اس سے مسلمانوں کو کافی حد تک راحت میسر آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس قانو ن سے متعلق اور بھی راحت بخش فیصلے سامنے آ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کرناٹک کی طرف سے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کافی پہلے ہی ےہ اعلان کر دیا تھا کہ نئے وقف قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اب عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ سنایا ہے اس کا ہر ایک کو احترام کرتے ہوئے آگے کے لائحہ عمل پر متوجہ ہونا چاہئے۔
منصور علی خان: اے آئی سی سی سکریٹری منصور علی خان نے وقف قانون پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مرکز کی مودی حکومت نے وقف قانون کی آڑ میں ملک میں ہندو مسلم نفر ت کو ہوا دینے کی کوشش کی تھی۔ اس قانون میں جان بوجھ کر ایسی دفعات کو شامل کیا گیا جن سے سماج میں ٹکراو¿ بڑھے۔ ےہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان کسی بھی املاک پر قبضہ کر کے اسے وقف قرار دے دیتے ہیں جو کہ غلط اور بے بنیاد ہے۔ وقف دراصل وہ املاک ہیں جن کو ہمارے اسلاف نے آنے والی نسلوں نے اللہ کے نام پر وقف کر دیا تاکہ آنے والی نسلیں فائدہ اٹھا سکیں۔ منصور علی خان نے کہا کہ سماج میں بدامنی پھےلانے اور ساتھ ہی وقف املاک کو ہتھیانے کی بری نیت سے مودی حکومت نے وقف ترمیمی قانون کومنظور کروایا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ نے اس قانون کو لے کر مسلمانوں میں جو خوف تھا اس کو کچھ حد تک ضرور دورکر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس بات کی جدوجہد ہونی چاہئے کہ او ر بھی جو خدشات ہیں ا ن کو بھی دورکر دیا جائے۔
نصیراحمد : وزیر اعلیٰ کے سیاسی سکریٹری اور رکن کونسل نصیر احمد نے وقف قانون پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خوش آئند اور راحت بخش قرار یا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ سے اس قانون کے بارے میں انصاف ملنے کی امید تھی۔حالانکہ عدالت نے قانون پر مکمل روک لگانے سے انکار کر دیا لیکن ان متنازعہ دفعات جن کو لے کر مسلمانو ںکو خوف تھا کہ ان سے اوقاف کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے عدالت نے ان میں سے چند پر روک لگا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے وقف قانون میں وقف املاک کی ملکیت کے بارے میں فیصلہ کرنے اضلاع کے ڈپٹی کمشنرو ں کو جو اختیارات دے دئےے گئے تھے ان پر روک لگا کر ہزاروں اوقافی املاک کی حفاظت یقینی بنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو وقف املاک مقدمہ بازی میں الجھی ہیں ان کی نوعیت بدل کر ا ن کو اوقاف کے زمرے سے نکالنے کی کوشش کی گئی تھی عدالت نے اس پر بھی روک لگا کر واضح کر دیا ہے کہ جب تک ٹریبونل یا عدالت کی طرف سے متعلقہ املاک کے بارے میں فیصلہ نہ آجائے تب تک مذکورہ املاک وقف ہی رہے گی۔ نصیر احمد نے عدالت نے اس فیصلہ کو راحت بخش قرار دیا اورکہا کہ اور بھی راحت کےلئے آنے والے دنوں میں اسی جوش وخروش کے ساتھ قانونی لڑائی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
سلیم احمد:کرناٹک لےجس لےٹو کونسل کے چیف وہپ سلےم احمد نے وقف قانون کے بارے میں سپریم کور ٹ کی سے سنائے گئے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے وقف قانون کی قابل اعتراض دفعات پر عبوری روک لگاتے ہوئے مسلم فریقو ں کو کافی حد تک راحت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اس قانون کے ذریعے معاشرے میں مختلف طبقات کے درمیان ٹکراو¿ کی صورتحال پےدا کرنا چاہتی تھی تاکہ مذہبی صف بندی پےدا کر کے سیاسی فائدہ بٹور سکے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ نے اس مذموم کوشش کو ناکام بنا دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلہ کے ساتھ ساتھ عام ہندوستانیوں کے ذہنوں میں اوقاف کو لے کر جو غلط فہمیاں بٹھا دی گئی ہیں ان کو دورکرنے کےلئے بھی کوشش ضروری ہے تاکہ کسی سیاسی قوت کو ملک کے باشندوں میں آپسی دوری پیدا کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع نہ ملے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 11سال کے دوران مودی حکومت نے ملک کے بنیادی مسائل سے عوام کو غافل کر کے ان کو ہمےشہ طلاق،وقف ،حجاب ،حلال جیسے تنازعات میں الجھانے کی کوشش کی۔ اب جبکہ وقف قانو ن پر عدالت کا فیصلہ آچکا ہے مرکزی حکومت کو اپنا روےہ بدل لےنا چاہئے۔
ڈاکٹر سید نصیرحسین: اے آئی سی سی جنرل سکریٹری اور رکن راجےہ سبھا ڈاکٹر سید نصیر حسین نے وقف قانو ن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اس بات کی کوشش میں تھی کہ وقف قانون کو نافذ کرنے کی آڑ میں ملک میں بدامنی ونفرت کے ماحول کو ہوا دے سکے۔ لےکن وقف املاک کی ملکیت کو متاثر کرنے کےلئے کی گئی کوشش پر سپرےم کورٹ کی روک نے اس کے ارادوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔ نصیر حسین نے کہا کہ کانگریس پارٹی کا شروع سے ہی ےہ موقف رہا ہے کہ اس ملک میں تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو یکساں اختیارات ہونے چاہئے ۔ مرکزی حکومت نے وقف قانون لاکر مسلمانوں کے ساتھ امتیازبرتنے کی کوشش کی ۔وقف قانون کے ذریعے کو عدم مساوات عام کرنے کی کوشش کی گئی تھی لڑائی اسی کے حلاف تھی ۔دانستہ طور پر وقف قانون میں ایسی دفعات کو شامل کیا گیا جن سے سماج میں فساد کے ماحول کوہوا دی جا سکے ۔نصیر حسین نے کہا کہ اس ملک کے آئین کے تحت اقلیتوں کو جو تحفظات دئےے گئے ہیں ان کو برقرار رکھتے ہوئے قانون بنایا جائے تو اس سے کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہے۔عدالت نے بھی آج اپنے فیصلہ میں ےہی بات کہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *