گنے کے کاشت کاروں کی مانگ کو ریاستی حکومت نے کیا تسلےم
فی ٹن گنے کی تائیدی قیمت3300روپے مقرر، کسان رہنماو¿ں سے میٹنگ کے بعدوزیر اعلیٰ کا فیصلہ
بنگلورو۔7 نومبر (سالار نیوز)کرناٹک کے شمالی اضلاع میں گنے کے کاشت کاروں کااحجاج شدت اختیار کرجانے کے نتیجے میں جمعہ کے روز وزیر اعلیٰ سدارامیا نے گنے کے کارخانوں کے مالکان اور کسان رہنماو¿ں کے ساتھ الگ الگ میٹنگس کیں اور ان میٹنگوں کے دوران کہا کے ریاستی حکومت گنے کے کاشت کاروں کے مسائل کو سلجھانے کےلئے سنجیدہ ہے۔میٹنگ کے بعدو زیر اعلیٰ سدارامیا نے کسانوں کی مانگ کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ کسانوں کو فی ٹن گنے کے عوض ریاستی حکومت کی طرف سے 3300روپے کی تائیدی قیمت ادا کی جائے گی۔ کسانوں کی مانگ تھی کہ ان کو 3500روپے فی ٹن کی رقم ادا کی جائے تاہم انہوں نے فیصلہ کیا کہ ریاستی حکومت کی طرف سے فی ٹن گنے کے عوض 3300روپے کی تائےدی قیمت ادا کرے گی۔ میٹنگ کے بعد ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سدارامیا نے کہا کہ انہوں نے سات گھنٹوں تک کسانوں اور گنے کے کارخانے والوں کے ساتھ مسلسل میٹنگ کا اہتمام کیا اور اس بات چیت کے نتیجے میں ایک مثبت نتیجہ سامنے آ سکا ہے۔ ریاست میں 81شکر کے کارخانے ہےں ان میں سے 11کو آپرےٹو شعبہ کے ہیں اور صرف ایک سرکاری ہے۔ باقی تمام نجی ہیں۔سدارامیا نے کہا کہ ریاستی حکومت کی طرف سے کسانوں کی مانگ کو تسلیم کر لئے جانے کے بعد امید ہے کہ کسان اپنا احتجاج ختم کردیں گے۔اس سے قبل ریاستی وزیر برائے قانون ایچ کے پاٹل اور ریاستی وزیر برائے شکر شیوانندا پاٹل نے ےہ اعلان کیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں جو بھی ممکن ہے وہ کرنے کےلئے حکومت تیار ہے البتہ جو معاملہ مرکزی حکومت کے اختیار میں ہے اس کےلئے مرکزی حکومت پر زور دیا جا ئے گا۔ انہوں نے کسان رہنماو¿ں سے مخاطب ہو کر کہا کہ مرکزی حکومت سے حل طلب مسائل کو سلجھانے کےلئے کسان رہنماو¿ں اور ان کی تنظیموں کو چاہئے کہ مرکزی حکومت پر دباو¿ بڑھائیں۔ کسان رہنماو¿ں نے میٹنگ کے دوران شکایت کی کہ شکر کے کارخانوں کی طرف سے گنے کے وزن میں ہیرا پھےری کی جاتی ہے اور کسانو ں کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اس مرحلہ میں باگل کوٹ کے ایک شکر کارخانہ کی طرف سے کسانوں کو گزشتہ سال کے بقایاجات کی ادائیگی نہ کئے جانے کا معاملہ اٹھایا گیا تو شیوانندا پاٹل نے اس سلسلہ میں مناسب اقدام کا یقین دلایا۔ میٹنگ کے دوران وزیر اعلیٰ نے کہا کہ شکر کےلئے تائیدی قیمت کے تعین کا اختیار مرکزی حکومت کو ہے ریاستی حکومت کو نہیں ۔ اس کے علاوہ ایتھنا ل کی قیمت طے کرنے کا اختیار بھی مرکزی حکومت کو ہے۔ مرکزی حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے مسائل پےدا ہوئے ہیںان کےلئے ریاستی حکومت سے حل کا مطالبہ کرنا کہاں تک درست ہے۔ ۔ وزن میں کارخانوں کی طرف سے دھوکہ دہی اور دیگر شکایتوں کی یکسوئی کا وزیر اعلیٰ نے یقین دلایا ۔ اس مرحلہ میں انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے قیمتوں کا تعین مناسب طریقہ سے نہیں کیا گیا ہے۔اس کے علاووہ کارخانوں کی طر ف سے گنے کے وزن کو ہر بار کم دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسانوں نے مانگ کی کہ گنے کی جانچ کےلئے ہر کارخانہ میں لیاب کے قیام کو لازمی قرار دیا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں جو بھی ممکن ہو سکے وہ قدم اٹھایا جائے گا۔انہوں نے کسان رہنماو¿ں سے مانگ کی کہ تین اضلاع میں انہوں نے جواحتجاج شروع کیا ہے اس جو ختم کیا جائے۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ نے شکر کے کارخانوں کے مالکان کے ساتھ میٹنگ کی اور ان کو سخت ہدایت دی کہ وہ کسانوں کی مدد کریں۔ شکر کے کارخانوں کے مالکان نے جب خسارہ کی شکایت کی تو وزیر اعلیٰ نے برجستہ کہا کہ اگر خسارہ ہو رہا ہے تو ایک کارخانے کا مالک دو دو تین تین کارخانہ کیو ں چلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی مدد کرنے کے معاملہ میں وہ فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔

