مسلمان اس ملک کی آبادی میں اضافہ کےلئے کسی بھی طرح سے ذمہ دار نہیں: ایس وائی قریشی
تعصب کا سچائی پر حاوی ہو جانا ملک کی جمہوریت کےلئے تشویشناک: ویرپا موئےلی
بنگلورو۔6 مئی(رضوان اللہ خان، چیف رپورٹر)ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کولے کر شدت پسندوں کی طرف سے کھڑا کئے جانے والے پروپگنڈہ کا سرکاری اعدادوشمار کی بنیاد پر منہ توڑ جواب دینے کےلئے اس ملک کے سابق چیف الےکشن کمشنر ایس وائی قریشی کی لکھی گئی کتاب ThePopulation Mythکے کنڑا ترجمے کا منگل کی شام شہر کی راڈیسن بلو ہوٹل میں منعقدہ ایک باوقار تقریب کے دوران اجراءکیا گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر ایم ویرپا موئےلی،سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر کے رحمن خان ، سابق وزیر روشن بیگ، اے آئی سی سی سکریٹری منصور علی خان نے اس کتاب کا اجراءکیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں ڈاکٹرویرپا موئےلی، ڈاکٹر کے رحمن خان اور ایس وائی قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم آبادی میں اضافہ کے سبب ملک کی آبادی کے متعلق جو خرافات عام کی جا رہی ہیں اس کتا ب کے ذریعے انہوں نے سرکاری ڈاٹا کی بنیاد پر جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ایس وائی قریشی نے کہا کہ خرافاتی باتوں کی وجہ سے ملک میں مختلف طبقات کے درمیان نفرت پھےلانے کی جو کوشش ان دنوں عام ہو تی جا رہی ہے اس کا جواب سرکاری ڈاٹا کے دلائل سے ہی دیا جانا چاہئے اور اس سمت میں ےہ کتاب ان کی ایک ادنی سی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہااس ملک میں ہندو اور مسلم آبادی کے درمیا ن فاصلہ 26کروڑ اور 80کروڑ تک پہنچ گیا ہے پھر بھی ہندو باشندوں کے درمیان ےہ چھوٹا ڈر پھےلا یا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بے تحاشہ بڑھائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تجزےہ کے مطابق مسلمانوں کے اگر اپنی آبادی میں اضافہ کا سلسلہ اب شروع کیا تو اس کو ہندو آبادی سے بڑھنے کےلئے کم از کم ایک ہزار سال کا عرصہ لگے گا جو کہ نا ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ےہ بات غلط ہے کہ اسلام فیملی پلاننگ کے خلاف ہے۔ بلکہ اسلام واحد مذہب ہے جس کے 1400َٓ سال پہلے ہی منظم خاندان اور معیار زندگی میں سدھار کی بات کی ہے۔ےہ کہہ کر اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو کثرت ازدواج کی اجازت دی گئی ہے جبکہ حقیقت ےہ ہے کہ مسلمانوں میں کثرت ازدواج کا چلن ملک کے تمام طبقات کے مقابل سب سے کم ہے۔ ایس وائی قریشی نے کہا کہ آبادی کے مسئلہ کو مذہبی عینک سے نہیں بلکہ سماجی معاشی اور تعلیمی پس منظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہاں آبادی کم ہے ۔ جس طبقے میں تعلیم زیادہ ہے وہاں زیادہ آبادی ہے اس میں مذہب کو درمیان میں لانے کی ضرورت نہیں۔ سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر کے رحمن خان نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ ملک میں جس طرح کا تعصب اور نفرت کا ماحول بنایا جا رہا ہے اس وجہ سے مسلمانوں کو فرضی پروپگنڈہ کی بنیاد پر بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ اس کا جواب دلائل اور سرکاری ڈاٹا کی بنیاد پر دینے کی جو کامیاب کوشش ایس وائی قریشی نے کی ہے وہ قابل مبارکباد ہے۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسند عناصر اپنے فرضی پروپگنڈہ کی بنیاد پر ہندوستانی سماج میں ہندو اور مسلمان کے درمیا ن خلیج کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ سچائی کو سامنے رکھ کر اس خلےج کو کم کرنے کی مخلصانہ کو شش کی جائے۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی آبادی میںاضافہ سے متعلق پروپگنڈہ کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ انہوں نے 1992-93کے دوران شروع کیا جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ایم ویرپا موئیلی نے ان کو ریاستی اقلیتی کمیشن کا چیرمین مقرر کیا اور ان کی طرف سے ریاست کی اقلیتی آبادیکیسماجی معاشی اور تعلیمی بنیادوں پر گنتی کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ اس گنتی کے ذریعے جو نتیجے سامنے آئے وہ ےہ تھے کہ مسلمانوں اس ریاست میں تعلیمی اور معاشی بنیادووں پر کافی پسماندہ ہیں اسی بنیاد پر موئےلی حکومت نے مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں ریزرویشن تجویز کیا۔ سابق وزیر اعلی و سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر ایم ویرپا موئےلی نے خطاب میں ملک کے موجودہ ماحول کو تشویشانا ک قرار دیا اور کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ پروپگنڈہ پر بھروسہ کرنے لگے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ فرضی پروپگنڈہ کو سچ بتا کرعوام کے ذہنوں میں داخل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کے مختلف طبقات کے درمیان دن بدن دوری بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ےہ دوری کچھ سیاسی طاقتوں کےلئے وقتی فائدہ ضرور پہنچا سکتی ہیں لیکن اس سے ملک اور ےہاں کی جمہوریت کا بہت بڑا نقصان ہو گا۔ انہوں نے ریاست میں مسلمانوں کو تعلیم ا ور روزگار میں ریزرویشن دینے اس وقت ان کی حکومت کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ےہ ریزرویشن مسلمانوں کو مذہبی بنیاد پر نہیں دیا گیا بلکہ سماجی ،معاشی اور تعلیمی طور پر پسماندہ ایک طبقے کی بنیاد پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کو دیا گیا ریزرویشن منسوخ ہو گیا لیکن کرناٹک میں رائج اس ریزرویشن کو اب تک اس لئے ختم نہیں کیا جا سکا کہ اس کو مذہبی بنیاد پر قطعاً نہیں دیا گیا۔ آج کل اس کی بھی مخالفت کافی زرووں سے ہونے لگی ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسو س ظاہر کیا گیا کہ کانگریس کے کسی لیڈر نے بھی اب تک اس مسلم ریزرویشن کا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اس ملک میں امتیازات اور تعصب کو مٹانے کےلئے انہوں نے مساوات کمیشن کے قیا م کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ 2013میں انہوں نے اس کےلئے دیانتدارانہ کوشش کی تھی تب اگرےہ کمیشن بن جاتا تو شاید تعصب اور امتیازات کو کافی حد تک روکا جا سکتا اور ملک کے ہر شہری کو اس کے جائز حقوق ملتے ۔ مگر بعد میں جب سے بی جے پی حکومت آئی ہے اس کی تصور ہی ختم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے مسلم آبادی کے بارے میں پروپگنڈہ کا جواب دینے کےلئے کتاب کی شکل میں ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے جو کوشش کی ہے اس کو قابل تعریف قرار دیا ۔

