مفادِعامہ کی عرضی پر حکومت کرناٹک اور وقف بورڈ کو ہائی کورٹ کی نوٹس
بنگلور۔ 26جولائی (سالار نیوز) اطلاع کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ کی ڈیویژن بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس کررہے تھے ۔ حکومتِ کرناٹک ریاستی وقف بورڈ اور بورڈ کے لئے نامزد کئے گئے چار ممبران کو جمعہ 25جولائی کو نوٹس جاری کردیا۔ اطلاعات کے مطابق شہر کی ایک سماجی خدمت گزارتنظیم ”سوبھیکشا کرناٹک ٹرسٹ“ جو خصوصاً اقلیتی محکمہ اور وقف بورڈ میں ہونےوالی کوتاہیوں پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ حکومت کرناٹک کی جانب سے ریاستی وقف بورڈ کے لئے نامز کئے گئے چارممبران جن میں جناب خالد احمد صاحب، جناب مولانا سید محی الدین حسینی پیرزادہ، جناب میر قاسم عباس اور محترمہ سارہ فاطمہ کی نامزدگی کو چیلنج کیا گیا ہے۔مفادعامہ کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ نامزد کئے گئے پہلے تین ممبران کی نامزدگی حکومت نے وقف ایکٹ 1995 (ترمیم 2014) کے سکشن 14(c) (d) اور (e)اور وقف رولس39,40-2017کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ہوئی ہے، تینوں ممبران کے بائیو ڈاٹالئے بغیر من مانی سے سارہ فاطمہ آئی پی ایس جو ڈی سی پی کے عہدہ پر فائز ہیں۔ سکشن (e)14کے مطابق ریاستی وقف بورڈ کے ممبر کےلئے درکار سرکاری عہدیدار جوائنٹ سکریٹری کے عہدہ سے کم نہیں ہونا چاہئے۔پہلے نامزد کئے گئے تین ممبران جو مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہوں۔ ایک پیشہ ور جو ٹاﺅن پلاننگ بزنس مینجمنٹ اسوسی ایشن ورک، فینائنس یا مال گزاری، زراعت اور ترقیاتی میدانوں میں ماہر ہونا چاہئے۔ سنّی عالم کے زمرہ میں وقف بورڈ میں ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے تسلیم شدہ تعلیمی ادارہ سے عالم وفاضل اور وقف رولس 2017کی شق 39اور 40کے مطابق عالم وفاضل کے علاوہ مفتی ہونا لازمی ہے۔ شیعہ عالم کےلئے بھی یہی ضابطہ لازمی ہے۔حکومت کرناٹک نے ان چار ممبرس کی نامزدگی سے پہلے وقف ایکٹ اور رولس کو مکمل بالائے طاق رکھ کر 4ممبرس کی نامزدگی کا حکمنامہ جاری کیا ہے۔ یہاں تک کہ 3ممبران کا بائیو ڈاٹابھی نہیں لیا گیا ہے۔ حکومت کے اس غیر قانونی حکمنامہ کو کالعدم قرار دینے کےلئے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کی ڈویژن بینچ نے مفادِعامہ کے لئے دائر کی گئی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے حکومتِ کرناٹک ،ریاستی وقف بورڈ کے علاوہ چاروں نامزد ممبران کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس کیس کی اگلی شنوائی 24ستمبر کو ہوگی۔

