urdu news today live

بیلگاوی کے رانی چنمّا منی چڑیا گھر میں 28 کالے ہرنوں کی پراسرار موت
زومےں خوف کاماحول،ماہرےن طلب،عملہ زےرنگرانی ،بیکٹیریل انفیکشن کا شبہ
بنگلور۔16نومبر(سالارنےوز)بیلگام کے رانی چنمّا منی چڑیا گھر میں گزشتہ تین دنوں کے دوران 28 کالے ہرنوں کی اچانک اور پراسرار موت نے محکمہ جنگلات کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ابتدائی شبہ ہے کہ یہ اموات خطرناک بیکٹیریل انفیکشن کے باعث ہوئی ہیں۔ ریاست کے وزیر جنگلات ایشور کھنڈرے نے معاملے کی فوری اور جامع تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جبکہ چڑیا گھر کے عملے کو باقی جانوروں کو فوراً الگ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔چڑیا گھر، جو 34 ایکڑ پر محیط ہے اور بیلگاوی سے 12 کلومیٹر دور واقع ہے، تقریباً 200 جانوروں کا مسکن ہے جن میں شیر، چیتے اور ہرن بھی شامل ہیں۔ تاہم اس سانحے میں صرف کالے ہرن متاثر ہوئے۔ یہاں موجود 4 سے 6 سال عمر کے 38 کالے ہرنوں میں سے 8 ہرن جمعرات کی صبح مردہ پائے گئے جبکہ مزید 20 ہفتے کے روز جان کی بازی ہار گئے۔ ذرائع کے مطابق مرنے سے قبل تمام جانور بالکل صحت مند دکھائی دے رہے تھے۔ڈپٹی کنزرویٹر آف فاریسٹ این ای کرانتی نے بتایا کہ لیبارٹری کی ابتدائی رپورٹس میں ہرنوں میں کلوسٹریڈیم بیکٹیریا کی موجودگی پائی گئی ہے، جو ایک متعدی مرض ہے اور دیگر جانوروں میں پھیلنے کا خطرہ رکھتا ہے۔ اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے محکمہ نے چڑیا گھر میں باقی جانوروں کی نگرانی مزید سخت کر دی ہے۔وزیر جنگلات ایشور کھنڈرے نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ویٹرنری سائنسز بنرگھٹہ، بنگلورو کے ماہرین کو بیلگاوی طلب کر لیا ہے۔ ماہرین کی ٹیم یہ جانچ کرے گی کہ آیا ہرن آلودہ پانی یا خوراک کی وجہ سے متاثر ہوئے یا یہ بیماری سے ےا کسی دوسرے جانورکے اثرسے ۔خصوصاً بلیوں جیسے گھریلو جانوروںسے پھیلی بےماری سے متاثرہوئے ہےں۔وزیر نے متنبہ کیا کہ اگر عملے کی غفلت ثابت ہوئی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔ مردہ جانوروں کے نمونے مزید تفصیلی ٹیسٹ کے لیے بنرگھٹہ بھیج دیے گئے ہیں۔ اس دوران بچ جانے والے 10 کالے ہرنوں کو تنہائی میں منتقل کر کے مسلسل طبی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔کالا ہرن ہندوستان اور نیپال کا ایک خوبصورت لیکن خطرے سے دوچار جانور ہے۔ نر ہرنوں کی سیاہ چمکدار کھال اور گھوبگھرالی سینگ انہیں منفرد بناتے ہیں جبکہ مادائیں بھورے رنگ کی ہوتی ہیں۔ رہائش گاہ کے نقصان اور غیر قانونی شکار کے باعث ان کی تعداد پہلے ہی کم تھی، ایسے میں یہ واقعہ تحفظِ جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *