urdu news today live

شہر میں 11 وےںکامن ویلتھ پارلیمنٹری اسوسی ایشن کی کانفرنس کا آغاز
ملک میں جمہوریت کو لاحق خطرہ پر سدارامیا کا اظہار تشویش
بنگلورو۔11ستمبر (سالار نیوز) شہر میں جمعرات کے روز لوک سبھا اسپےکر اوم برلا کے ہاتھوں 11ویں کامن ویلتھ پارلیمنٹری اسوسی ایشن کی کانفرنس کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس میں ملک بھر کی مختلف اسمبلیوںکے اسپےکرس کونسل کے چیرمین اور دیگر ممتاز شخصیتوں کی شرکت ہو رہی ہے۔اس کانفرنس کے افتتاحی جلسہ میں وزیر اعلیٰ کرناٹک سدارامیا نے کہا کہ کھوکھلی جنونیت ایسے ڈکٹیٹر پیدا کرتی ہے جو اختلاف رائے کو خاموش کردیتے ہیں، وہ مظاہر جنہیں ہم دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں ،ایسے لمحات میں قانون ساز ادارے مکالمے کے میدان کے طور پر کام کرنے کے بجائے ایک آمر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ تقسیم اور شناخت کی سیاست بھی ایک بڑا خطرہ بن کر ابھر رہی ہے۔ جمہوریت کا ایک اور دشمن، معاشرے کو تقسیم کرنے کےلئے شناخت کا غلط استعمال ہے۔ جب ذات، مذہب یا زبان کو سیاسی فائدے کےلئے ہتھیار بنایا جاتا ہے، تو مقننہ سب کو شامل کرنے کے بجائے اخراج کا میدان بننے کا خطرہ بن جاتی ہے۔ حقیقی جمہوریت یہ ہے کہ کمزور ترین طبقات کی شناخت کرے اور انہیں بااختیار بنائے، اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارے اختلافات جمہوریہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بجائے مزید تقویت دیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایک خطرناک رجحان سماجی ڈارون ازم ہے،اس کے تحت یہ تاثر ہے کہ صرف مضبوط ترین لوگ ہی پھلنے پھولنے کے مستحق ہیں۔ اس طرح کی سوچ مساوات اور جمہوریت کو کمزورکرتی ہے، ایک حقیقی جمہوریت کا اندازہ اس بات سے نہیں ہوتا کہ وہ کس طرح طاقتور کو بااختیار بناتی ہے، بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ کس طرح سب سے کمزور کو ترقی دیتی ہے۔ رسمی ڈھانچے سے ہٹ کر جمہوریت احترام، مکالمے اور رواداری کی عادات پر منحصر ہے۔ جب عوامی بحث دشمنی میں بدل جاتی ہے، جب قانون ساز ادارے غور و فکر کے بجائے خلل کے میدان بن جاتے ہیں،اس سے جمہوریت کا کلچر ہی زوال پذیر ہوتا ہے۔ اس کلچر کے بغیر، جسے امبیڈکر نے آئینی اخلاقیات کہا، مضبوط ترین ادارے بھی جمہوریت کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ آج کی دنیا میں، پوسٹ ٹروتھ کلچر کا عروج، جہاں جذبات اکثر حقائق سے زیادہ ہوتے ہیں، غلط معلومات زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں، یہ جمہوریت کےلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ مقننہ کو سچائی، ثبوت اور عقلی بحث کی جگہ پر دوبارہ اپنادعوی کرنا چاہیے۔ ان کے علاوہ، عصری جمہوریتوں کو غلط معلومات، رائے عامہ کی اعدادی ہیرا پھیری، سکڑتی ہوئی شہری جگہوں، اور اداروں پر اعتماد کے خاتمے کی صورت میں نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔سدارامیا نے کہا کہ ان دشمنوں کو للکار نے کےلئے ہمیں اجتماعی طور پر جمہوریت کی رونق بحال کرنی ہو گی اور کمزوروں کی آواز کو بلند کرنا ہوگا۔ پارلیمانی بحثیں محض رسمی نہیں بلکہ سب کو قائل کرنے اور استدلال کی حقیقی مشقیں ہونی چاہئیں۔ اس کےلئے کمیٹی کے نظام کو مضبوط بنانے، شفافیت کو یقینی بنانے، اور ثبوت پر مبنی پالیسی سازی کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ احتساب کو پ±ر اثر کرنا ہے۔ شہریوں کو اپنے نمائندوں کو نہ صرف انتخابات کے دوران بلکہ ہر روز مقننہ میں جوابدہ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ مباحثوں کو تمام طبقات، نوجوانوں، خواتین، پسماندہ برادریوں اور دیگر کمزور طبقات کی امنگوں کی عکاسی کرنی چاہیے۔ پارلیمنٹ کو نہ صرف تعداد میں بلکہ حقیقت میں بھی نمائندہ ہونا چاہیے۔ دنیا بھر کے بہترین نظام اور طریقوں کا مشاہدہ کیا جائے اور ان کو اپنایا جائے۔ آئرلینڈ میں شہری اسمبلیوں سے لے کر برازیل میں شراکتی بجٹ سازی تک، ہندوستان میں ہماری اپنی گرام سبھا تک، ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوری جدت کیسے ممکن ہے۔اس سے قبل اس کانفرنس کے افتتاحی پروگرام میں کرناٹک اسمبلی کے اسپےکر یو ٹی قادر نے خیرمقدمی خطاب کیا اور سہ روزہ کانفرنس کے اغراض ومقاصد بیا ن کئے۔ ودھا سودھا کی سیڑھیوں پر منعقدہ اس کانفرنس کے افتتاحی پروگرام کے بعد اگلے دو دن کانفرنس کی تمام میٹٹنگس شہر کے تاج ویسٹ اینڈ ہوٹل میں ہوں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *