ووٹ کی طاقت توپ تفنگ سے کہےں زےادہ ہے: ڈی کے شےوکمار
ےوم جمہورےت کے موقع پرطلبہ اور نوجوانوں میں قیادت کی صفت کو پروان چڑھانے ‘میرا ووٹ، میرا حق’ مہم
بنگلور۔15ستمبر(سالارنےوز)طلبہ اور نوجوانوں میں قیادت کی خصوصیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ووٹ ڈالنے اور جمہوریت کی قدروں کا شعور بیدار کرنے کے لئے ”میرا ووٹ، میرا حق“ پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ان خےالات کااظہارپیر کوبین الاقوامی ےوم جمہوریت کے موقع پر ودھان سودھامیں منعقدہ تقریب میں رےاستی وزےراعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے کےا۔انہوں نے کہا کہ ووٹ کا حق صرف ایک اختیار نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔ووٹ کی طاقت توپ تفنگ سے کہےں زےادہ ہے۔جومہاراجہ تھے اب وہ اپنے گھروں میں ہیں، مگر ووٹ کے ذریعے منتخب نمائندے عوامی خدمت کررہے ہےں۔ مےں اوروزےراعلیٰ سدارامےا سمیت کئی رہنما ووٹ کے حق کی بدولت ابھرے ہیں۔ عوام کا ووٹ ہی ہمیں اقتدار تک لے آیا ہے، آج ہم اےک جواب دہ مقام حاصل کیے ہوئے ہیں۔جمہوری نظام میں ووٹ اور ووٹ کا حق ہمیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اختلاف ہو سکتا ہے، مگر عوام ہمیں اپنے فیصلے سے رہنما بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب جمہوری نظام میں بستے ہیں۔ پوری دنیا میں ہمارا ملک ایک بہت بڑا جمہوری ملک ہے۔ جمہوریت کانظریہ اسی سرزمےن کی پےداوارہے ۔ بسونا نے تجرباتی طورپر انوبھو منٹپ قائم کیا، مساوات اور مشترکہ سماج کے تصورکو فروغ دیا، جہاں ذات، مذہب، فرقہ کے امتیازات نہ ہوں ۔ یہ خواب نو سو سال پہلے دےکھاگےاتھا۔انہوں نے کہا کہ اگر نوجوانوں میں قیادت کی صفات نہ ہوں تو ترقی ممکن نہیں۔ تعلیمی ادارے اورےونےورسٹےز بھی اسی مقصد کے لیے کام کر سکتی ہیں۔ نئی نسل کو جمہوریت اور ووٹ کا مطلب سمجھانا ہوگا۔ 18 سال کی عمر ہونے کے بعد ووٹ کی اہمیت محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے دورطالب علمی میں ہی اسکول کے انتخابات میں حصہ لیا تھااو راسی راہ پر چل پڑے اور آج ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عوامی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے چامرراج نگر کے سابق رکن پارلیمان آنجہانی دھرو نارائن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک ووٹ کے فرق سے انتخاب جیتا تھا،ان کے مدمقابل موجودہ کولےگال کے رکن اسمبلی کرشنامورتی کاڈرائےوروقت ختم ہونے سے ووٹ نہیںڈال سکا تھااس کی وجہ سے کرشنامورتی جےت نہےں سکے،راجستھان کے سی پی جوشی دوےاتےن ووٹ سے شکست کھاگئے جس کی وجہ سے وہ وزےراعلیٰ کے عہدہ سے محر وم ہوگئے۔ ملک کی مختلف رےاستوں مےں چند ووٹوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیاہے۔ اس لیے ہر ووٹ قیمتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک نے ووٹ ڈالنے کی عمر 21 سال سے کم کرکے 18 سال کی ہے۔اس وقت مےں پاس حاصل کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث سننے گےاتھا۔ اس موقع پر اپوزےشن پارٹیاں راجےوگاندھی پرٹوٹ پڑی تھےں کہ 18 سال کے طالب علم کو ووٹ کا حق دینا غلط ہے؟ لیکن راجیو گاندھی نے اپوزےشن کے اعتراض کومستردکرتے ہوئے کہاتھا کہ اےس اےس اےل پاس طالب علم کو بندوق دیتے ہوئے سرحدپربھےج رہے ہےں ،کےاہمارا18سال کے بچوں کو ووٹ دینے کاحق غلط ہے؟ انہوں نے نوجوانوںکی قوت پر اعتماد ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ 18 برس کی عمر پر ذہنی پختگی آجاتی ہے، خود سوچنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، ووٹر اپنا نمائندہ منتخب کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ انہوں نے عدالت، انتظامیہ، مقننہ اور صحافت کو جمہوریت کے ستون قرار دیا اور کہا کہ اگر ہم غلط ہوں تو عدالت اسے روکنے والی ہے، صحافت تمام کی غلطیوں کو سماج تک پہنچاتی ہے۔ مگر آج کچھ لوگ ووٹ چوری کے عمل میں ملوث ہیں۔ ریاست میں بھی ووٹنگ مےں اونچ نےچ ہوئی ہے۔ اس کے خلاف راہل گاندھی نے جد و جہد شروع کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک کے عوام نے ایک ایسی حکومت کومنتخب کیا ہے جو پورے ملک کے لیے مثال ہے۔ طاقتور سماج کے خواہشمند لوگوں نے ایسی حکومت کا انتخاب کیا ہے۔ اسی لیے جمہوریت کو قائم رہنا چاہیے، ووٹ کا حق قائم رہنا چاہیے۔ نوجوان نسل کو اس ملک کی دولت بنے رہناچاہئے۔

