urdu news today live
Headlines

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد کا آخری پیغام، جس کو پڑھ کر لوگ ہوجاتے ہیں جذباتی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد کا آخری پیغام، جس کو پڑھ کر لوگ ہوجاتے ہیں جذباتی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یعنی اے ایم یو کے بانی سر سید احمد خان کا آخری پیغام آج بھی یونیورسٹی کے ڈک پوائنٹ پر لکھا ہوا ہے۔ اس کو پڑھ کر لوگ جذباتی ہو جاتے ہیں۔

لی گڑھ : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یعنی اے ایم یو کے بانی سر سید احمد خان کا آخری پیغام آج بھی یونیورسٹی کے ڈک پوائنٹ پر لکھا ہوا ہے۔ اس کو پڑھ کر لوگ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک عظیم استاد، انسانی مذہب کے پیروکار کے ساتھ ساتھ جدید ہندوستان کے عظیم مصلح کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سر سید احمد خان نے 1875 میں ایک اسکول شروع کیا تھا، جو بعد میں 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہوا۔

سر سید احمد خان نے اپنے آخری پیغام میں کہا ہے کہ اے میرے پیارے بچو تم ایک خاص مقام پر پہنچ گئے ہو۔ ایک بات یاد رکھنا کہ جب میں نے تعلیم کی روشنی پھیلانے کا کام کیا تو چاروں طرف میری تنقید ہورہی تھی، مجھے گالیاں دی جارہی تھیں، میرے لئے زندگی اتنی مشکل ہوگئی تھی کہ میں اپنی عمر سے پہلے ہی بوڑھا ہوگیا تھا ۔ میں نے اپنے بال تک کھو دئے، اپنی آنکھوں تک کی روشنی کھو دی، لیکن اپنا نظریہ نہیں کھویا ۔ میرا نظریہ کبھی کم نہیں ہوا ۔ یعنی میرا خواب اور میرا عزم کبھی ناکام نہیں ہوا۔ میں نے یہ ادارہ آپ کے لیے بنایا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس ادارے کی روشنی کو دور دور تک لے جائیں گے۔ جب تک آپ کے چاروں طرف سے انسانی زندگی سے اندھیرا ختم نہ ہو جائے۔

لی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر (پی آر او) عمر پیرزادہ کا کہنا ہے کہ اس آخری پیغام میں سرسید کی جو فکر اور سوچ تھی، اس کے ذریعہ وہ بیاں ہوتی ہے۔ سر سید نے پیغام کے ذریعے جو بات کہی، وہ یہ کہ میرے آنکھوں کی روشنی چلی گئی، میرے بال چلے گئے، لیکن میرا کمٹمنٹ اور جو میرا وژن اور مشن تھا، وہ آپ لوگوں کیلئے ، آپ کے مستقبل کے لئے ہے، اس ملک کے مستقبل کیلئے ہے، قوم کے مستقبل کیلئے ہے

انہوں نے کہا کہ اس پیغام کو سمجھتے ہوئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے 108 ممالک میں سابق طلبہ موجود ہیں، جو سرسید احمد خان کے پیغام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح سے جو آج طالب علم ہیں، ان کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سرسید احمد خان کے پیغام اور وژن کو آگے لے جائیں۔ آخر میں میں یہ یہی کہوں گا کہ سر سید کے اس پیغام کو لوگ سمجھیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔

One thought on “علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد کا آخری پیغام، جس کو پڑھ کر لوگ ہوجاتے ہیں جذباتی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *