دو کٹر دشمن ممالک نے بدل لئے قیدی، ترکی میں ہوا سمجھوتہ، 16 سال کی سزا یافتہ قیدی بھی لوٹا وطن
دو کٹر دشمن ممالک نے بدل لئے قیدی، ترکی میں ہوا سمجھوتہ، 16 سال کی سزا یافتہ قیدی بھی لوٹا وطن
ترکی کے صدارتی دفتر نے کہا کہ سرد جنگ کے دنوں کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان قیدیوں کا یہ سب سے بڑا تبادلہ ہے۔ اس معاہدے میں کم از کم 26 قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔
نئی دہلی : امریکہ اور روس کو دنیا کٹر دشمن کے طور پر دیکھتی ہے۔ لیکن طویل عرصے کے بعد دونوں ممالک نے قیدیوں کا تبادلہ کیا ہے۔ ان میں روس میں قید وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹر ایوان گیرشکووچ، میرینز کے پال ویلان اور روسی نژاد امریکی ریڈیو صحافی السو کرماشیوا شامل ہیں ۔ ابھی چند روز قبل ہی گیرشکووچ کو جاسوسی کے الزام میں 16 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ترکی کے صدارتی دفتر نے کہا کہ سرد جنگ کے دنوں کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان قیدیوں کا یہ سب سے بڑا تبادلہ ہے۔ اس معاہدے میں کم از کم 26 قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ ترکی کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی کی ایم آئی ٹی انٹیلی جنس سروس کی جانب سے کیے گئے اس تبادلے میں امریکہ، جرمنی، پولینڈ، سلووینیا، ناروے، بیلاروس اور روس کے قیدی شامل تھے۔
وال سٹریٹ جرنل کے صحافی گیرشکووچ کو روس کی ایک عدالت نے جاسوسی کے الزام میں 16 سال قید کی سزا سنائے جانے کے چند ہی ہفتے بعد رہا کر دیا ہے۔ ساتھ ہی سابق امریکی میرین پال وہلن کو بھی اسی طرح کے الزامات کے تحت روس میں حراست میں لیا گیا تھا۔ امریکہ نے دونوں کے خلاف الزامات کو من گھڑت قرار دیا تھا۔
ترک ایوان صدر نے کہا کہ 10 روسی قیدیوں کو ان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ان میں 2 نابالغ بھی ہیں۔ 13 قیدیوں کو جرمنی اور تین کو امریکہ بھیجا گیا ہے۔ ترکی کی قومی انٹیلی جنس ایجنسی (MIT) نے کہا کہ ہم نے اس آپریشن میں اہم ثالثی کا اہم کردار ادا کیا۔ قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک خصوصی روسی طیارہ استعمال کیا گیا۔
اس سے کچھ دیر پہلے امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا تھا کہ ‘‘میں فی الحال قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ اپنے غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے شہریوں کو واپس لانے کے لیے تیار ہے۔”