
نئی دہلی،15فروری (ایجنسی)سپریم کورٹ نے بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ذات کی بنیاد پر وکلاءکو ریزرویشن دینے سے انکار کر دیا۔ بنگلور بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کے سلسلہ میں این جی او ایڈوکیٹ فار سوشل جسٹس کی طرف سے دائر عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کوتیشور سنگھ نے کہا کہ ہم وکلاءکو ذات کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی اس معاملہ کو سیاسی رنگ دینے دیں گے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ اس سے کیڑے کا ایک ڈبہ کھل جائے گا اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ بغیر کسی ڈیٹا کے نہیں ہونا چاہیے۔خواتین کے لیے مخصوص نشستیں الگ معاملہ تھا۔ ہم بار ممبران کو ذات پات کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اس معاملہ کو سیاسی رنگ دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سماعت کے دوران جسٹس سوریا کانت نے کہا کہ ہم بغیر کسی متعلقہ ڈیٹا کے ایسا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ملک کے اراکین پارلیمنٹ مختلف مسائل اور کمیونٹیز کے بارے میں حساس ہوتے ہیں جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب بھی ریزرویشن کے حوالے سے کوئی بل آتا ہے تو اس پر ماہرین کے درمیان کافی بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ مختلف ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ آپ اسے دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ آج ہم بغیر کسی درست ڈیٹا کے ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس معاملہ کو ایک سنجیدہ سوال کے طور پر دیکھتے ہوئے بار ایسوسی ایشن سے متعلق دیگر زیر التوا عرضیوں کے ساتھ اس کی جانچ کی جائے گی۔ایسے معاملات میں مناسب ڈیٹا اور تجزیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایک مخصوص کمیونٹی کے کتنے لوگ قانونی پیشے میں ہیں اور ان کی نمائندگی کس حد تک کم ہے۔ عرضی میں این جی او ایڈوکیٹس فار سوشل جسٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ بنگلور ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی کے لئے ریزرویشن کا بندوبست کیا جائے۔ اس پر بنچ نے کہا کہ یہ دونوں فریقوں کی طرف سے اٹھائے گئے قابل بحث مسائل ہیں۔اس پر صحت مند ماحول میں بحث ہونی چاہئے۔ ہم ایسے معاملات پر بار باڈیز کو تقسیم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ یہ ہمارا ارادہ نہیں ہے۔ بنچ نے اس معاملے کو بار ایسوسی ایشن کو مضبوط کرنے کے زیر التوا مقدمات سے جوڑا۔ اس پر 17 فروری کو سماعت ہوگی۔ این جی او کی جانب سے عرضی گزار سینئر ایڈوکیٹ مادھوی دیوان نے کہا کہ پچھلے 50 سالوں سے بنگلور بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکیٹیوباڈی میں ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی زمرہ سے تعلق رکھنے والے ایک بھی رکن کا تقرر نہیں کیا گیا ہے۔دیگر ممالک میں بار باڈی کے انتخابات میں ریزرویشن اور دیگر مثبت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس سے نوجوانوں کو بار کے ممبر کے طور پر آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔ اس سے قبل کرناٹک ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کو اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا مشورہ دیا تھا۔ 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے 24 جنوری کے اپنے حکم نامہ میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ بار ایسوسی ایشن میں نائب صدر کا اضافی عہدہ پیدا کیا جائے۔عدالت نے اس سے قبل حکم دیا تھا کہ بار ایسوسی ایشن میں خزانچی کا عہدہ خاتون امیدوار کے لیے مختص ہوگا۔ لیکن تب تک کئی مرد وکلاءاس عہدہ کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کر چکے تھے۔ عدالتی حکم کے حوالے سے بار ایسوسی ایشن کے وکلاءنے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔