
بنگلور، 5 مارچ (راست) اسلام، مسلمان، قرآن اور مساجد و مدارس کے حوالہ سے برادران وطن میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان غلط فہمیوں کی وجہ سے اس سلسلہ میں غیر مسلموں میں ایک منفی تصور پایا جاتا ہے۔ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے سلسلہ میں بڑے پیمانے پر کوئی کوشش بھی نہیں کی جاتی- مسجد کے نام کے ساتھ ہی مسلمانوں کیلئے خالص مقدس مقام کا تصور ابھرتا ہے لیکن دور نبوی کا ہم جائزہ لیں تو مسجد سے نہ صرف عبادت بلکہ دعوت و اصلاح، تعلیم و تعلم، مختلف مذاہب کے وفود سے ملاقات اور کئی سماجی کام کی انجام دہی کا اسوہ ملتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں ہم نے برادران وطن میں اس کام کو مکمل طور پر فراموش کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ نفرت بڑھتی جا رہی ہے، دلوں کے فاصلے وسیع سے وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں؛ کیوں کہ باہمی تعارف سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور فاصلے سمٹتے ہیں، اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور ایک ایسے دور میں جب اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیاں اور نفرتیں زور و شور سے پھیلائی جارہی ہیں، اگر ہماری مساجد برادران وطن کے ذہن کی گرہوں کو کھولنے اور ان کے قلوب میں نرمی پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں تو اس سے بہتر بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیة علماءکرناٹک کے صدر مفتی افتخار احمد قاسمی نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ملک کے موجودہ حالات میں برادران وطن تک اسلام کے صحیح تعارف کو پہنچانے اور اس کیلئے خاموش دعوت کا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہم مواقع اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مسجدوں میں برادران وطن کو مدعو کریں۔ رمضان المبارک ہمارے لئے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے مذہب اسلام کا تعارف پیش کرنے کا بہترین موقع ہے، اس کا سب سے آسان طریقہ اور اس کی ترتیب یہ ہو کہ محلہ یا اطراف و اکناف میں بسنے والے ہمارے غیر ایمانی بھائی جو اثر و رسوخ رکھتے ہیں یا جو قدآور شخصیات ہیں، ان کو ویک اینڈ یعنی ہفتہ کے اخیر کے دنوں میں مسجد کے اندر روزہ کھولنے کی دعوت دی جائے، مثال کے طور پر پورے رمضان کے ہر ویک اینڈ یعنی ہر ہفتہ اور اتوار کو صرف دس دس لوگوں کو ہی مدعو کریں تو اِس حساب سے پورے مہینہ میں علاقہ کے کل 80 لوگوں کو ہم مسجد بلا پائیں گے اور یہ 80 افراد ہمارے ساتھ بیٹھ کر افطار کریں اور مغرب کی نماز کے وقت ان کیلئے بیٹھنے کا نظام بنا دیں اور وہ ہماری مغرب کی نماز کی کیفیت دیکھیں اور مغرب کے بعد کھانے میں اپنے ساتھ شریک کریں، اس کے بعد اگر گنجائش ہو تو انہیں قرآن مجید کے ترجمہ کا ایک نسخہ یا سیرت کی کوئی کتاب ہدیہ دے کر عزت و اکرام کے ساتھ رخصت کریں، اس سے علاقہ میں ہم آہنگی کا ایک اچھا ماحول بنے گا، غیروں کو رمضان اور مذہب اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے گا، اس طرح ہم یہ کام بہت اچھے انداز میں انجام دے سکتے ہیں جوکہ ہمارے لئے بہت مفید اور کارگر ثابت ہوگا۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے تمام برادران اسلام بالخصوص ذمہ داران مساجد سے اس سلسلہ میں پیش رفت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس مشن میں ملک کے ہر ایک مسجد کے ذمہ داران حصہ لیں گے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں گے۔