بنگلورو۔15 فروری (سالار نیوز) آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سکریٹری اور ماہر تعلیمات منصور علی خان نے کہا ہے کہ ملک کی جو نئی تعلیمی پالیسی اور جو نیاتعلیمی نظام تیار کیا گیا ہے اس میں زیادہ تر توجہ صرف تعلیمی نصاب پر دی گئی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ طلباءکی کردار سازی اور ان کے ڈسپلن پر بھی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ افسوس کی بات ےہ ہے کہ تعلیمی نظام کے تحت طلباءاور اساتذہ کو صرف تعلیمی نصاب کے دائرہ میں قید کر کے رکھ دیا گیا ہے تعلیم کا مطلب صرف مقررہ نصاب کی تکمیل نہیں بلکہ بچوں کی کردار سازی ان کی سماجی ، معاشرتی اور اخلاقی تربیت بھی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ حد تک ان پہلوو¿ں پر پرائیوےٹ تعلیمی اداروں میں توجہ دی جا رہی ہے جہاں تک سرکاری تعلیمی نظام ہے اس میں اس پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ سرکاری تعلیمی اداروں بالخصوص پرائمری اور ہائی اسکولوں میں ڈراپ آو¿ٹ کی رفتار کو کم کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک جاتے جاتے ڈراپ آو¿ٹ کی شرح80فیصد یا اس سے زیادہ تک پہنچ جاتی ہے ان ڈراپ آو¿ٹ بچوں کے مستقبل کی طرف توجہ دی جائے اور ان کو تعلیم واخلاق سے آراستہ کیا جائے اس جانب حکومتوں کو توجہ دینی چاہئے۔ منصور علی خان نے کہا کہ فروغ ہنر مندی کی بات کی جاتی ہے لےکن اس میں صرف ان نوجوانوں کو موقع دیا جا رہا ہے جو زیر تعلیم ہیں یا تعلیم یافتہ ہیں ان طلباءکی طرف توجہ نہیں دی جاتی جو ڈراپ اٹ ہو چکے ہیں اس کا نتیجہ ےہ ہو رہا ہے کہ ایک تو روزگار کی قلت کے سبب ڈراپ آو¿ٹس بڑی تعداد میں بے روزگار ہو تے جا رہے ہیں اور دوسری خطرناک بات ےہ ہے کہ وہ منشیات اور دیگرنشہ کی لتوں کا شکار ہو تے جارہے ہیں جو کہ گزرتے وقت کے ساتھ سماج کےلئے خطرہ بن رہے ہیں حکومت کو تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے مرحلہ میں اس جانب بھی متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگربنیادی تعلیم سے ہائی اسکول سطح تک آتے آتے ڈراپ آو¿ٹس کی شرح 80فیصد ہو جاتی ہے تو ملک کی آبادی میں شامل ان 80فیصد طلباءکو تعلیم سے محرو م رکھا جا چکا ہے ایسے میںکسی بھی حکومت کی طرف سے نافذ کی گئی تعلیمی پالیسی کو کامیاب ہرگز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ تعلیمی پالیسی کا مقصد ہے ہونا چاہئے کہ تعلیم کے اوسط میں اضافہ کیا جائے۔ صرف نصابی کتابیں، پین پنسل، یونیفارم دے دینے سے تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی بلکہ تعلیمی اداروں میں نصاب کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بچوں کو اس ملک کا ایک ذمہ دار شہری بنانے کی طرف بھی توجہ دیں ۔ جب وہ تعلیم مکمل کر کے فارغ ہو جائے تو وہ ملک کےلئے ایک اثاثہ بنے نہ کہ بوجھ۔منصور علی خان کا کہنا ہے کہ ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں شامل ادارے کے ذمہ دار ہونے کے ناطے اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ ےہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر نصاب کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاق وکردار سازی پر توجہ دی جائے تو ان کو ملک کے ذمہ دار شہری بنانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *