بنگلور۔12مارچ (سالارنےوز)رےاستی وزےربرائے محصولات کرشنابائرے گوڈا نے قانون ساز کونسل کو مطلع کیا کہ مرکزی حکومت کے ”مینٹیننس اینڈ ویلفیئر آف پیرنٹس اینڈ سینئر سٹیزنز ایکٹ ، 2007“ نے اپنے بچوں یا رشتہ داروں کو موقع دیا ہے کہ اگر وہ اپنے والدین اور بزرگوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے ہیں تو وہ وصیت ےادن پترمنسوخ کر سکتے ہیں۔ بروزچہارشنبہ 12مارچ کو رکن قانون ساز کونسل بلقیس بانو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ آج کل بہت سے ایسے معاملات سامنے آرہے ہیں جہاں بچے اپنے والدین کی دیکھ بھال نہیں کر رہے ہیں۔ بزرگ شہریوں کو بچوں یا رشتہ داروں کے نام پر کی گئی وصیت یا عطیہ منسوخ کرنے کا حق ہے اگر وہ ان کی دیکھ بھال نہیں کرتے ہیں۔ حکومت ہند نے والدین اور بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اور بہبود ایکٹ ، 2007 نافذ کیا۔ تاہم بہت سے لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے ہےں۔ انہوں نے کہا کہ میں کونسل میں اس قانون کا ذکر اس ارادہ سے کر رہا ہوں کہ ان معلومات کو مو¿ثر طریقہ سے سب تک پہنچایا جائے۔اس قانون کے مطابق بچوں یا رشتہ داروں کو بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کرنی پڑے گی۔ انہیں ادویات سمیت اپنے ماہانہ اخراجات ادا کرنے ہوںگے۔ ادائیگی نہ کرنے یا دیکھ بھال میں غفلت برتنے کی صورت میں بزرگ شہری سیکشن 09 کے تحت متعلقہ حکام کے پاس شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ اگر بزرگ شہری کی شکایت ثابت ہو جاتی ہے یا جائیداد کی دیکھ بھال والدین نہیں کرتے ہیں تو سیکشن 23 کے مطابق والدین اپنے بچوں یا رشتہ داروں کے نام پر لکھی ہوئی وصیت یا دستاویز(دان پتر) کو منسوخ کر کے اسے والدین کے نام پر بحال کر سکتے ہیں۔ یہ ذمہ داری ڈپٹی کمشنروں کو سونپی گئی ہے۔انہوںنے کہاکہ سب ڈویزنل مجسٹریٹ کے سامنے پہلے ہی ہزاروں مقدمات ہیں۔ اس سلسلہ میں ضلع کے ڈپٹی کمنشنرز کے ساتھ مےٹنگےں کی جا رہی ہیں۔ وزیر محصولات نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ درخواست دہندگان کو ڈپٹی کمشنر سے اپیل کرنے کا موقع بھی دیا گیا ہے۔ غریب اور بے زمین کسانوں کو بغےر حکم اسکیم کے تحت زمین کی منظوری کے لئے ریاست بھر میں اب تک کل 185 کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ کرشنا بائرے گوڈانے کہاکہ بغےر حکم اسکیم کے تحت افسران فارم 53 اور فارم 57 کی درخواستوں کو نمٹائے بغیر کسانوں کو ہراساں یا پرےشان نہیں کر سکتے۔ کرشنا بائرے گوڈا نے ایوان کو بتایا کہ اگر ریاست میں ایسا کوئی معاملہ ملتا ہے تو اسے میرے نوٹس میں لائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *